کوچہ جاناں سے گھو م کے آئی ہے
ان کی خوشبو کو سنگ اپنے لپیٹ لائی ہے
بارش تو ہی بتا وہ کیسے دکھتے ہیں
تو کہ ان کے خدوخال چوم کے آئی ہے
میں کہ سمٹی ہی تھی ان کے لمس میں
ھوا پھر ان کی خوشبو بکھیر آئی ہے
کبھی چہرہ، کبھی گیسو، کبھی شب سیماب سی آنکھیں
واللہ یہ کسیی جلوہ نمائی ہے
خدارا دل کو کس طرح سے سنبھال پاؤں
جس نے ان کی خاطر اٹھائی ہنگامہ آرائی ہے
بارش تیرے تقدس میں خود کو جھکا بھی دوں تو کم ہے
تو کے میرے یار کے آستانے سے ہو کے آئی ہے