کو ئی راہور نہ کوئی رہبر نکلا
چلے قافلہ لے کر بےسمت سفر نکلا
جو اپنی ذات کا محور تھااب نہ رہا
جیسے ساحل بنا ادھورا سمندر نکلا
یہ خود پرستی تھی یا حق پرستی تھی
جب خود تراشا تو وہی عیب و ہنر نکلا
میرے واقعات میں حالات کا تلاطم تھا
ورنہ ذرخیز تھا شجر وہ جو بنجر نکلا
یہ تو معنی کا تفاوت ھے ورنہ سمیعہ
لفظ تو ایک تھا فرق بس زیر و زبر نکلا