چاہ میں چاہ کا کوئی رنگ تو ہو
اس در کے دوارے کوئی سنگ تو ہو
سب دیپ کیوں بجھیں‘ اک تو رہے
دل میں اس کی باقی امنگ تو ہو
رنگیں مزاج کو کب جچے گی سادگی
وہ آئے تو اک منقش پلنگ تو ہو
انکو دیکھے سے ہمیں بھی آئی بیگانگی
ہمارے نہ ملنے سے وہ اب تنگ تو ہو
بحر سے جو ڈھونڈا جائے گا اک موتی
وہ میرے معیار کے پاسنگ تو ہو
باہر تو کرفیو لگا ہے صبح و شام کا
ان کی خبر واسطے اک سرنگ تو ہو
بہت لڑاتے رہے پیچ اب تلک ناصر
تیجہ اب اک کٹی پتنگ تو ہو