کچھ آج بھی کہتے ہیں مسلمان مری جاں
Poet: ابنِ مفتی By: سید اے مفتی, houstonکچھ آج بھی کہتے ہیں مسلمان مری جاں
کافر ہیں سبھی شہر کے انسان مری جاں
لگتا ہے کہ فرصت سے تجھے رب نے بنایا
مبہوت جو ہر ایک ہے انسان مری جاں
وہ ایک ہے جسکے ہے مقدر میں ہزیمت
کشتی ہے مری اور ہے طوفان مری جاں
آلام جدائی سے کہاں مجھ کو افاقہ
کچھ اور کرو درد مجھے دان مری جاں
ہو نیند جہاں موت کی مانند وہاں پر
کب دیکھنا پھر خواب ہے آسان مری جاں
دل چیز ہے کیا نذر تری جان بھی کی ہے
اب کتنا ادا اور ہو تاوان مری جاں
یہ عشق کا جذبہ ہے جو ہم ملنے لگے ہیں
ورنہ تھی کہاں جان یا پہچان مری جاں
انسان کو انسان ، سمجھتے نہیں یکسر
ہیں ایسے بڑے شہر میں انسان مری جاں
ہر ایک تمہارا ہی ، طلبگار لگے ہے
ہو حسن کی دولت سے بھری کان مری جاں
مقطع لئے مفتی جو ترے کوچے میں آیا
مطلع تھا مرے فکر کا عنوان مری جاں
More Love / Romantic Poetry






