کچھ آنکھیں بھی ہیں جو لگن کا سبب نہیں بنتی
کہیں بھی نیک امیدیں الجھن کا سبب نہیں بنتی
اپنے آپ سے ہی تسکین کی امید رکھو
باہر کی رغبتیں تو مسکن کا سبب نہیں بنتی
میں تم سے ملتے ملتے کئی لوگوں سے ملا ہوں
نہیں تو وہ ساعتیں ملن کا سبب نہیں بنتی
ہم چلتے چلتے شاید آگے نکل چکے تھے
ورنہ ایسی بھی ملاقاتیں ارپن کا سبب نہیں بنتی
وہ شوق کوئی تھا جو سُلگ کر رہہ گیا مگر
سنو! میری حسرتیں جلن کا سبب نہیں بنتی
کاش تُو میرے مزاج پر اتر کر سن بھی لیتا
تو یہ اَن کہی باتیں دھڑکن کا سبب نہیں بنتی