کچھ آنکھیں رک گئی نیند کے سرانے
اَن کہی باتیں رک گئی نیند کے سرانے
چپ رہہ کر بھی ججھکتی ہیں روز
عجیب الجھنیں رک گئی نیند کے سرانے
وہ تو شوق میری حسرت نہیں بن سکا
مگر کچھ رغبتیں رک گئی نیند کے سرانے
ابکہ رات، مفارقت، اور یہ تنہائیاں
کیسی کیسی خلوتیں رک گئی نیند کے سرانے
ذکر اور فکر کے آغوش میں بیٹھے تو
کئی کئی مدتیں رک گئی نیند کے سرانے
جب بھی جزا و سزا کا کتاب کھلا سنتوشؔ
کچھ تو آخرتیں رک گئی نیند کے سرانے