کچھ آنکھیں ہیں معجزہ ملا بھی نہ سکو گے
اشک بھر آئیں گے مگر رُلا بھی نہ سکو گے
یہاں ہیں طرفداریاں، طرف سبھی اپنے اپنے
ایسے میں خود کو انصاف دلا بھی نہ سکو گے
یہ عارضی ہیں ملاقاتیں خودی کو سنبھال رکھ
کبھی خود سے روٹھے تو منا بھی نہ سکو گے
قبول اظہار کو بھی قدردانی نہیں ملتی
ہونٹوں پہ ترسے ظہور سنا بھی نہ سکو گے
آؤ کہ مل کر شہر بدر کا سوچیں
جم گئے جہاں میں تو ہلا بھی نہ سکو گے
کرو ضبط غم ایسے کہ دھڑکنیں دھل جائیں
یوں تو کسی یاد کو بھلا بھی نہ سکو گے