کچھ الفاظ چبُھ جاتے ہیں نظر نہیں آتا
کئی احساس دب جاتے ہیں نظر نہیں آتا
آشنائی سے تیرا کوئی تعلق نہ بھی ہو مگر
بے جا نین اٹک جاتے ہیں نظر نہیں آتا
یا منزلیں خیالوں میں عاجزی بھرتی ہیں
یا راستے تھک جاتے ہیں نظر نہیں آتا
میں تقدسی کا اوروں سے کیوں پوچھوں؟
ایمان، منشور بک جاتے ہیں نظر نہیں آتا
دل کو قزاقوں سے کتنا بچا کر رکھو مگر
ٹھگنے والے ٹھگ جاتے ہیں نظر نہیں آتا
یوں تعاقب انتظار میں کبھی کبھی سنتوش
وقت کے کانٹے رک جاتے ہیں نظر نہیں آتا