ہم جب سے ایک گل کے تمنائی بن گئے
ہر آتی جاتی رُت کے تماشائی بن گئے
کچھ سلسلوں کو توڑ گئے چند واقعات
کچھ حادثات وجہِ شناسائی بن گئے
محرومیوں نے ہم کو تماشا بنا دیا
پھر یوں ہوا، خود اپنے تماشائی بن گئے
جو آتشِ فراق میں جلتے رہے وہ دل
کندن ہوئے تو حسن کی زیبائی بن گئے
طارق، کہا تھا اُس نے کہ بربادِ عشق رہ
سو ہم بھی اُس کے قول کی سچائی بن گئے