ان سے پھر اپنی کوئی رفاقت نہیں رہی
شاید اسے ہماری بھی حاجت نہیں رہی
کچھ خواب تھے جو میرے وہ سارے بکھر گئے
کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی
کہتی تھی تم کو میں نہ کبھی بھول پاؤں گی
باتوں میں اس کے کوئی صداقت نہیں رہی
رسوا کیا تھا جس نے وہی پوچھتے ہیں اب
لہجے میں ارشیؔ تیرے نزاکت نہیں رہی
ممکن نہیں کبھی اسے دل میں بسائیں پھر
دل پر ہمارے اس کی صدارت نہیں رہی
صحرا میں اک شجر مجھے اس وقت ہی ملا
جب دھوپ میں ذرا بھی تمازت نہیں رہی
آئے ہیں پاس اب مرے وہ حال پوچھنے
جب جسم میں ہمارے حرارت نہیں رہی