کچھ سوکھے پھول اپنے کتابوں میں رکھتی تھی
وہ پاگل سی لڑکی کیا عذابوں میں رکھتی تھی
کوئی ٹھہراؤ خلل قریب سے گذرا تھا شاید
وہ چلتے بھی خود کو باتوں میں رکھتی تھی
خود ہی کے خیال میں خود ہی سمٹ کر
یوں دباکر ہی انگلی دانتوں میں رکھتی تھی
بہکتے ہاتھوں میں وہی کپکپاتی قلم لیکر
آخر کون سی تحریریں یادوں میں رکھتی تھی
دھڑکنوں کی ردم بھی زمانہ نہ سُن لے تو
حسرتوں کے سبھی فساد سانسوں میں رکھتی تھی
وہ تردید کا نشہ عالم سے چھپاکر سنتوشؔ
اپنی سب انگڑایاں چاند راتوں میں رکھتی تھی