کچھ لوگ کجروی سرکشی کا مزاج بن گئے ہیں
جب سے وہ زندگی کے محتاج بن گئے ہیں
دامن بھی ہیں لیکن پناھیں کہاں سے لائیں
درد چھُپ نے سکے اور عذاب بن گئے ہیں
نگاہوں پہ نقاب ہیں مگر خواہشیں تو قید نہیں
بند رہ گئی زبان اور اظہار حجاب بن گئے ہیں
دُور تھے تو سبھی لگ رہے تھے محبت کے منظر
لیکن قریب رہکر تو کچھ حساب بن گئے ہیں
بڑا کٹھن ہے حسرتوں سے مکر کر بیٹھ جائیں
سمونے لگے سلسلے تو یہ آداب بن گئے ہیں
خاک پر کھڑے ہوکر جس کو بھی چاند پکارا
آج وہی پہلو سبھی ماھتاب بن گئے ہیں