کچھ نہیں لیتا ہے دسمبر میں
کچھ نہیں کہنا ہے دسمبر میں
سرد راتیں یاد ہیں سب سردی کی
یار نے ملنا ہے دسمبر میں
دینی بیوی نے نہیں ہے اب لسی
چائے ہی پینا ہے دسمبر میں
دن خوشی کے سب گئے ہیں اب چلے
کرب بس سہنا ہے دسمبر میں
سب وہ قرضے دے دیے ہیں دوستو
کچھ ابھی دینا ہے دسمبر میں
لاش زندہ بن چکا ہوں پہلے سے
خون بس بہنا ہے دسمبر میں
چھوڑ کے شہزاد جائے گا چلا
ہجر میں جینا ہے دسمبر میں