کچھ نہیں ہوتا ہے یہاں ہم سے
میرے گاؤں ملو وہاں ہم سے
کال ان کی سنی نہیں ہے آج
ہو گیا یار بدگماں ہم سے
کرتا ہے جھوٹے روز وعدے وہ
روز ملتا ہے وہ کہاں ہم سے
پیار الفت نہیں رہی ہے وہ
ہے پشیمان مہرباں ہم سے
کوئی آکر ہمیں یہ بتلائے
کیوں ہے ناراض آسماں ہم سے
کرتا شہزاد اعتبار نہیں
روز لیتا ہے امتحاں ہم سے