شہر تیرا ، تیرے دیوار اور در، یہ کھڑکیاں
؛ میں کروں گا یاد اَب فُٹ پاتھ پر یہ کھڑکیاں
چل رہی ہے آج کل ہر سَمت زہریلی ہوا
تُم سدا رکّھا نہ کیجے کھول کر یہ کھڑکیاں
جَب کبھی دُکھ کی ہوائیں گھر میں ہیں چلتی مرے
پیٹتی ہیں اپنے دروازوں سے سر یہ کھڑکیاں
میرے گھر کی بےبسی پر ، اور مرے حالات پر
پڑھ رہی ہیں مرثیہ شام و سحر یہ کھڑکیاں
لؤٹ کر میں پھر نہ آؤں گا ،تمہارے شہر میں
بند کرنا ہے ، تو کرلو سوچ کر یہ کھڑکیاں
اَب مرے جانے کا تُم کو غم نہیں پر ، ایک دِن
راستہ دیکھو گے میرا، تھام کر یہ کھڑکیاں
یاد آتا ہے دریچے سے ، ترا وہ دیکھنا
فِکر سے ہٹتی نہیں شام و سحر یہ کھڑکیاں
میرے کوچے میں ترا بھی ، ہو گزر شایٔد کبھی
راستہ دیکھے ترا ، میری نظر ، یہ کھڑکیاں
اَب تو دلکشؔ اُن کے کوچے میں پڑے گا بیٹھنا
کھولتے ہیں کب کِسے وہ بول کر ،یہ کھڑکیاں