کہانی محبت کی کچھ ایسے موڑ آیا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے ہی اپنا گھر جلاآیا ہوں
زندگی ہم سے نہ مانگ قربانی
میں ترے ہاتھ میں تاوان تھماآیاہوں
رنج راحت کدہ کیوں کر ہوتا ہے
میں اپنی روح کو تجربہ گاہ بناآیا ہوں
موت بھی ہم ایسوں سے دور بھاگتی ہوگی
میں اس کی آنکھوں میں آج آنکھیں ڈال آیا ہوں
حصار تخیل کا تیرے ٹوٹ گیا
میں تیرے ہاتھ میں پروانہء ہجر تھماآیاہوں