لفظوں کو میرے دے کے وہ خوشبو کہاں گیا
مجھ کو سکھا کے جانے وہ اردو کہاں گیا
مانا کہ مسکرانے کی عادت ہی ڈال لی
پر دل سے درد آنکھ سے آنسو کہاں گیا
اب تک سوال میرا بھی قائم وہیں پہ ہے
آیا تھا وہ کہاں سے یوں پھر وہ کہاں گیا
رستہ مجھے اندھیرے میں دکھلاتا جو رہا
بلبل یہ پوچھتی ہے وہ جگنو کہاں گیا
کیسے نمازِ عشق یوں تجھ سے قضا ہوئیں
گرتا تھا آنکھ سے جو وہ آنسو کہاں گیا
چہرے پہ اب ترے یہ اداسی کا راج کیوں
آنکھوں کا وہ خمار وہ جادو کہاں گیا
گھیرا غموں نے جب مجھے سب نے ہی یہ کہا
تیرا تو ایک ہی تھا وہ ساہو کہاں گیا