کہا غیروں نے زخم لگا کے ہم بھی ترے اپنے ہیں
کہا کہیوں نے مجھے ستا کے ہم بھی ترے اپنے ہیں
ہر دوست کی دلی خواہش یہی رہی جناب
کیسے کہے اِسے ہم مٹا کے ہم بھی ترے اپنے ہیں
تسلیاں دینے والے ہی ہاتھ ہیں میرے قاقل
یہی کہتے ہیں گھر جلا کے ہم بھی ترے اپنے ہیں
محفلوں میں جو اُڑاتے ہیں سادگی کا مذاق
وہ ہی کہتے ہیں آ کے ہم بھی ترے اپنے ہیں
پوچھا اُس سے کیوں تُو نے بھی زخم دیے
بولے نہال جی مسکرا کے ہم بھی ترے اپنے ہیں