کہتے ہیں وہ وفا کو نبھایا نہیں گیا
دل میں تو ایک دل کو بسایا نہیں گیا
ٹقٹا مرے یقین کا میرے ہی ہاتھ سے
اک آئینہ تھا وہ بھہ بچایا نہیں گیا
برسا ہے درد اشک کی صورت زمین پر
دریا تو آنسوؤں کا بہایا نہیں گیا
حیوانیت زمین پہ جلوہ فروز ہے
انسانیت کو پھر بھی بلایا نہیں گیا
میرے طبیب! تجھ سے کروں دوستی میں کیا
اک بھول دل کا تجھ سے کھلایا نہیں گیا
جو بھول چکا پیار کو قول و قرار سب
وشمہ وہ بے وفا تو بھلایا نہیں گیا