کہہ کر بھی نہ آؤ کہ انتظار بڑھتا رہے
پاس سے گذر جاؤ کہ درد سلگتا رہے
میں میری گردش میں تنہا لگتا ہوں
کبھی تیری ضرب سے ملاؤ کہ زخم پھولتا رہے
دکھ یہ تو نہیں کہ پھر آتشی ٹھہر گئی
اپنے قیاس کو جگاؤ کہ قرض چڑہتا رہے
اُس حالت کے بعد اب کوئی حالت نہیں رہی
میرے حال کو تو بہلاؤ کہ دل بہلتا رہے
خودپسندی بھی کہیں خطا کر بیٹھتی ہے
اس بھرکم کو سمجھاؤ کہ مزاج ملتا رہے
یہ منظر بھی تو جیسے قہر آلود ہوگئے
اپنے آپ کو سجاؤ کہ اندھیرا ڈھلتا رہے
اگر حُسن وفا ہے تو مجھے نہ کہو سنتوشؔ
دنیا کو بھی دکھلاؤ کہ الزام ٹلتا رہے