کیا قباحت ہےرابطہ ہی نہیں
اور سانسوں میں حوصلہ ہی نہیں
بڑھتی جاتی ہے آج تشنہ لبی
اس ترے پیار کی وفا ہی نہیں
وہ جو رہتا ہے دل کی دھڑکن میں
اس کو اپنوں سے واسطہ ہی نہیں
اس سمندر میں ہاتھ میرا ہے
ناؤ اشکوں کی اب سزا ہی نہیں
اپنے الفاظ کے لبادے میں
اپنے جذبات روکتا ہی نہیں
دل کی خواہش جو بڑھ رہی ہے ابھی
لطف آئے گا حوصلہ ہی نہیں
روشنی کی طلب میں ہم وشمہ
اپنی آنکھوں سے رابطہ ہی نہیں
آپ کے شہر گر رہوں وشمہ
شہر سارا ہے سلسلہ ہی نہیں