یادوں میں تیری جب بھی تصویر نظر آئی
یکسر فضائے گلشن دلگیر نطر آئی
جب جب بھی حق کی خاطر کھولی زبان ہم نے
ہاتھوں میں نئی ترے تعزیر نظر آئی
تم بھی تو کونہ کونہ دنیا کا پھر چکے ہو
کیا لیلی کہیں دیکھی؟کیا ہیر نظر آئی؟
جو داستاں الفت اب تک نہ کہی تم سے
ہر پھول کے چہرے پہ تحریر نظر آئی
جو تم پہ عیاں کر دے سینے کی ساری وحشت
ایسی نہ کہیں جاناں تنویر نظر آئی
جس سمت نظر اٹھی اس شہر مرمریں میں
اپنے ہی رویوں کی تشہیر نظر آئی
ایسا طلسم دیکھا شہر وفا میں اب کے
ہر سرعتی کے پیچھے تاخیر نظر آئی
کہتے ہیں جہانگیری انصاف کی مظہر ہے
ہم کو تو ہر گلے میں زنجیر نظر آئی
سوچا تھا ابن آدم خوشیوں میں گھرا ہو گا
دنیا تو حادثوں کی جاگیر نظر آئی