کیا کہیں کیسے کٹی کل شب تنہائی تھی
بس طبیعت تری تصویر سے بہلائی تھی
تو نے جب پہلے پہل گھر میں قدم رکھا تھا
تیرے جلووں سے دمک اٹھی یہ انگنائی تھی
مثل پروانہ تری آگ میں جل جائیں گے
تیرے دیوانوں نے یہ کیسی قسم کھائی تھی
ذکر چل نکلا تھا اک دوسرے ہرجائی کا
باتوں باتوں میں تری بات نکل آئی تھی
دیر تک گاڑے رہے در پہ نگاہیں ہم بھی
بزم میں آپ کے آنے کی خبر آئی تھی
دھڑکنیں اب بھی بڑھا دیتی ہیں تانیں اس کی
کتنی دل سوز کسی روز یہ شہنائی تھی
رہنے والے نہ حسن کوئی تھے حقدار بہت
مٹی کے مول گئی کوٹھی جو آ بائی تھی