کیا ہے حال دل بتا نہ سکا
پھر بھی اس دل میں غم چھپا نہ سکا
تیری محفل تھی خوش مزاجوں کی
تیری محفل میں مسکرا نہ سکا
ہاں دیکھی تیری آتش قدمی
میری مرقد بنی تو آنسکا
آنکھیں پتھرا گئیں روتے روتے
خود پہ اک اشک مگر بہا نہ سکا
ایسے روٹے وہ بچھڑ کر صادق
ان کو خوابوں میں بھی میں پا نہ سکا