کیا یاد آیا کہ میری یاد میں رونے لگے
چھوڑ کے روشنائیاں تم برباد میں رونے لگے
تمہیں تو فرق نہیں پڑتا تھا میرے وجود سے
کیوں آج تم میرے بعد میں رونے لگے
اُدسیاں ، تنہائیاں تمہیں تو پسند نہ تھیں
کیوں تنہا آج حالتِ بے شاد میں رونے لگے
آج کی رات تو تری حسرتوں کی رات ہے
کیوں نئی خواہش نئی فریاد میں رونے لگے
گزرا وقت لوٹ کے کھبی آتا نہیں جانم!
کیوں گزری یاد بے بنیاد میں رونے لگے
بڑی مشکل سے سیکھا ہے مسکرانا پھر سے
کیوں آ کے میری زندگی آباد میں رونے لگے
کومل ہاتھوں پہ ترے مہندی بھی لگ چکی ہے
کیوں آج تم نہال بے مراد میں رونے لگے
کیا یاد آیا کہ میری یاد میں رونے لگے
چھوڑ کے روشنائیاں تم برباد میں رونے لگے