کیا یاد ہیں تمہیں وہ ایک گلاب
جسے تم سے تمھا تھا
تو وہ جی ُاٹھا تھا
جسے تم نے اپنا کہا تھا
تو وہ تم پے مر مٹا تھا
جسے اس زمانے کی نہیں
صرف تمہاری پروا ہوا کرتی تھی
یوں تو وہ کانٹوں کی ساتھ بھی
زندگی گزار رہا تھا مگر
تمہارے احساس نے
تو ُاسے زندگی بخشی تھی
وہ تو کود ہے خشبوں کا پیکر
مگر پھر بھی پاسے تمہاری
خشبوں کی طلب ہوا کرتی تھی
کیا یاد ہیں تمہیں وہ ایک گلاب ؟
جسے تم دنیا کی نظروں سے
ہر پل بچاتے تھے جسے تم
ہر پل صرف اپنا صرف اپنا کہتے تھے
جو تمہیں ہر ادا سے اچھا لگتا تھا
جس کا رنگ روپ تمہیں سچا لگتا تھا
جس کی معصومیت میں
تمہیں اک بچا لگتا تھا
جس کے نام کے ساتھ
تمہیں مرنا بھی اچھا لگتا تھا
کیا یاد ہیں تمہیں وہ ایک گلا ب ؟
جو تم سے دور ہو کے مرجھا گیا ہیں
جو بےقصور ہو کر بھی سزا پا رہا ہیں
جو جیتا تھا تمہارے ساتھ سے
آج وہی گلاب خود کو مٹا رہا ہیں
تم تو ُاسے تنہا چھوڑ گیے مگر
وہ اکیلا ہواں سے اپنا آپ بچا رہا ہیں
جو تمہارے لوٹ آنے کا انتظار تو کرتا ہیں
مگر اب آہستہ آہستہ وہ مرجھا رہا ہیں