ہم لوگ کیسی دنیا میں آئے ہوئے ہیں
ہر کسی کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں
غم میں بھی مسکرانا عادت ہے اپنی
سینے میں بڑے غم چپھائے ہوئے ہیں
ہمیں قہر بھری نظروں سے نہ دیکھو
یہ حربے ہمارے سکھائے ہوئے ہیں
میرے پیار کی بدولت جو کھلے رہتے تھے
سنا ہے اب وہ پھول مرجھائے ہوئے ہیں
جو پل بھر دور نہ رہتے تھے اصغر
آج ہم کے لیے پرائے ہوئے ہیں