کیسے چلیں جو مقصدِ منزل نہیں رہا
جاں لے کے کیا کریں گے جو قاتل نہیں رہا
داغِ جفا سے جل اٹھے سینے کے ولولے
کیسے قدم بڑھائیں کہ وہ اب دل نہیں رہا
دنیائے عشق میں تو رکاوٹ پہ ہیں مزے
کیا لذتیں ملیں گی جو حائل نہیں رہا
بحرِ حیات میں اے خلیلی# ذرا سنو!
کشتی کو کیا کرو گے جو ساحل نہیں رہا