کیوں حالِ دل چہرے سے اس کے آشکارا ہو گیا
Poet: Dr. Riaz Ahmed By: Dr. Riaz Ahmed, Karachi.کیوں حالِ دل چہرے سے اس کے آشکارا ہو گیا
محلِ دل ارمانوں کا یوں پارہ پارہ ہو گیا
در کھلے رہتے تھے جن کے دل، نگاہیں،فرشِ راہ
اب انہیں کے کوچے میں مشکل گزارہ ہو گیا
جدائی پل بھر کی جِسے برداشت نہ تھی، یہ فراق
سوچتا ہوں میں یہ کیسے اب گوارہ ہو گیا
جن رقیبوں کے لئے کہتے تھے وہ ہم سے ، ہیں غیر
ان ہی سب غیروں سے اب ان کا ہے یارہ ہو گیا
اڑتی ہوئی اِک خاک میں وہ اب گریباں چاک ہے
جو فلک پہ چاند تھا ٹوٹا ستارہ ہو گیا
عاشقوں سے دل لگی حسینوں کا شیوہ ہے اب
فارغ نہیں جب دوسرے، مجھ کو اشارہ ہو گیا
دھڑکیں تھیں جس کے دم سے، رونقیں اور زندگی
خالی اُس اپنے مکیں سے دل بےچارہ ہو گیا
زعمِ محبت میں درِ خو اعتنا سمجھا نہیں
رقیب سے اس کھیل میں اس کو خسارہ ہو گیا
مٹی سے بنی ذات پر اس کی محبت کا غرور
ٹوٹنا غرور کا سمجھو کفارہ ہو گیا
وہ جان ہر محفل کی ہیں آ جائیں جو خموشی میں
لگتا ہے سطحِ آب پہ جاری فوارہ ہو گیا
حرکتیں ایسی نہیں جو کہہ سکیں یہ برملا
چھوڑا ہے دنیا کو اب عاشق تمہارا ہو گیا
میرا یقیں، خواہش بھی ہے ،اظہار عملا کچھ نہیں
ہو اگر راضی جو وہ، سب کچھ ہمارا ہو گیا
فکروں سے آزاد اِک بادل تھی میری زندگی
پیار میں جیون میرا بجھتا انگارہ ہو گیا
اب تعلق کچھ نہیں رکھنا مجھے، تجھ سے کہا
کس لئے تجھ کو بلاوا پھر دوبارہ ہو گیا
اجنبی تو ہم نہیں اُس کے سراپے سے، ریاض
سایہ ہی دیکھا تھا بس سمجھو نظارہ ہو گیا
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






