کیوں رنجشیں اب اور بڑھانے کے لیے جاؤں
کیوں پھر سے میں رسوائی اٹھانے کے لیے جاؤں
رکّھا نہ ذرا جس نے بھرم میری وفا کا
اے دل میں اسے کیسے منانے کے لیے جاؤں
جب توڑ دیئے اس نے وہ جذبات کے رشتے
پھر کیسے مراسم میں نبھانے کے لیے جاؤں
دنیا کے دکھانے کو بلا بھیجا ہے اس نے
حد ہے کہ میں اب صرف زمانے کے لیے جاؤں
تنہائی میں اب روئے وہ دیواروں سے لگ کر
کیوں سینے لگا کر میں رلانے کے لیے جاؤں
جس شخص نے رکّھا مجھے اَنْدھیروں میں ہر دم
کیوں اس کے لیے شمعیں جلانے کے لیے جاؤں
لکّھے تھے کبھی میں نے جو پیڑوں کے تنوں پر
اب نام وہ سارے ہی مٹانے کے لیے جاؤں
بِھجوائے جو نذرانے دغاباز نے مجھ کو
کس گور میں اب ان کو دبانے کے لیے جاؤں
جس شہر میں اجڑا مرا بستا ہوا سنسار
اس شہر کو میں آگ لگانے کے لیے جاؤں ؟