دیکھے تھے تیرے اور ہی کچھ خواب آج کل
آنکھوں میں تونے بھر دیا سیلاب آج کل
رہتی ہیں دن کے ماتھے پہ سورچ کی شوخیاں
اور رات کو ستائے ہے مہتاب آج کل
مجھ کو غموں کی بھیڑ نے رستے میں لے لیا
کھلتا نہیں ہے زندگی کا باب آج کل
پہلے ہی عاشقی کے کنارے سے دور ہوں
ہونے کو ناؤ ہے مری غرقاب آج کل
پہلے تو اس نے پیار سے دیکھا کبھی نہ تھا
کیوں میری طرح ہو رہا بیتاب آج کل
یہ رات ہے تو یاد کی پرچھائیاں بھی ہیں
آنکھوں میں تیرے پیار کا ہے خواب آج کل
رکھا ہے مجھ کو وشمہ جی ایسے نصیب نے
جیسے ہو کوئی ماہیءِ بے آب آج کل