کیوں نہ دوست کوئی ایسا بنایا جائے
جس کو ہر لفظ نہ سمجھایا جائے
زندگی بہت قلیل ہے کیوں کسی سے بیر رکھاجائے
ہر دن ہو جیسے آخری،ہر دن ایسے بتایا جائے
رکھیں کیوں کسی اور سے امید بہاراں
کیوں نہ خود کے اندر ہی خوشیوں کو تلاشاجائے
شکایتیں مانا کے بہت ہیں بہت سی بہت سے لوگوں سے
کیوں خود کو ہر بار اک سی اذیت سے گزارا جائے
قید میں ہو چاہے کوئی بھی دم گھٹتا ہے زمان
اب کیوں نہ اس بار جذبہ محبت کو بھی اڑایا جائے