پیغام محبت کا اگر لائے دسمبر
بہتر ہے کہ چپکے سے گزر جائے دسمبر
کیوں پیار کی بانہوں کو ہے ترسائے دسمبر
یخ بستہ زمانہ ہے مرا ،ہائے دسمبر
آ جاتا ہے نذدیک یہ چپ چاپ سمٹ کر
پیتے ہوئے دیکھوں میں اگر چائے ،دسمبر
جاتے ہوئے لے جاتا ہے سب اپنے فسانے
آئے تو بہت خواب یہ دکھلائے دسمبر
مر جائے گا اک روز یہ سردی سے لپٹ کر
ان آنکھ کی جھیلوں سے چلا جائے دسمبر
اقرارِ وفا کر کے مجھے چھوڑ نہ جائے
اے کاش کہ کچھ اور ٹھہر جائے دسمبر
وشمہ کو مری جان نیا سال مبارک
جاتے ہوئے احباب سے ملوائے دسمبر