خارزار ِ زندگانی ہو رہا ہے کم مرا
حسرتِ دل دیکھ آکر جا رہا ہے غم مرا
اعتبار ِ منزل ِ دل تھا کہ جب تم ساتھ تھے
گرچہ رستہء محبت بھی نہیں تھا کم مرا
وہ کہ جس کے ہجر میں، میں ڈھل گیا مثل ِ چراغ
کیوں جلاتا ہے دیا اب کے منانے غم مرا
میں بھی کِھل جاتا وفا کی آبیاری کے سبب
یوں تو پیش ِ مرگِ الفت تک رہا موسم مرا
میں کبھی محفل میں جس کی رونق ِ محفل رہا
اب وہی لیتا نہیں ہے نام بھی کم، کم مرا
وصل کے لمحات سارے شعر میں ڈھل کر مرے
بن گئے ہیں ساز میرے، لے مری، سرگم مرا
میں ہوں دنیا کی نظر میں اس لئے احسن بلند
بس وفا شیوہ رہی اور عجز سے سر خم مرا