گزری جو رات آئی سحر آہستہ سے
Poet: By: Peerzada Arshad Ali Kulzum, harrisburg pa usaگزری جو رات آئی سحر آہستہ سے
آیا تیرا نام لب پے مکر آہستہ سے
محسوس کر کہ کیا ہوا سینے میں
بتا دے گا تجھے کچھ جگر آہستہ سے
کیا یہ وہی ہے جو آیا تھا دیوانہ وار
وہ بولا کچھ پہچاں کر آہستہ سے
دیکھنا غور سے تمہاری ہوئی بدنامی اس پل
ڈالو ضرور پر ڈالو نظر آہستہ سے
اٹھاتا نقاب شرما گیا رسم تھی دنیا داری تھی
کہہ گیا سب وہ پر آہستہ سے
دریچوں کو دیکھو کلیاں کیے مسکرائے جاتی ہیں
بنالیں ہم بھی کسی کو ایسا ہمسفر آہستہ سے
جلدی سے بلالو شب کو صبح میں جی نہیں لگتا
کرم ہوگا اب نہ بکھیرو زلفوں کو مگر آہستہ سے
اٹھالو چاند علی تاروں کو بھر لو دامن میں
روکا نہیں اٹھانے سے اٹھاؤ مگر پر آہستہ سے
More Love / Romantic Poetry






