اک گل مہکا ہے گلِ فیضان میں
چاند بھی چمکا ہے پوری آب و تاب سے
سدائیں آئی ہیں جشنِ بہاروں سے
اب آؤ چلیں ساتھ کہ پیغامِ عشق آیا ہے
ذرا ٹھرو تو سہی
میں سج سنور تو لوں
پھولوں کی چادر تو اوڑھ لوں
کہ ادھر سیج سجا ہمارا ہی تو ہے
اُن پنکھڑیوں سے گزرنا ہمیں ہی تو ہے
تم تھام کے میرا ہاتھ کہنا ” قبول “ ہے
کہ ملنے سے ہم دلوں کے عرش بھی جھوم اُٹھے
وہ اک گل مہکا ہے آج گلِ فیضان میں
اور چاند بھی چمکا ہے پھر پوری آب و تاب سے