گو میرے دل کے زخم ذاتی ہیں
ان کی ٹیسیں تو کائناتی ہیں
آدمی شش جہات کا دُولھا
وقت کی گردشیں براتی ہیں
فیصلے کر رہے ہیں عرش نشیں
آفتیں آدمی پہ آتی ہیں
کلیاں کِس دَور کے تصّور میں
خُون ہوتے ہی مُسکراتی ہیں
تیرے وعدے ہوں جن کے شاملِ حال
وہ امنگیں کہاں سماتی ہیں