گپ کی کھچڑی۔۔۔عظیم شاعر کی تلاش
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillنادان ہے نا سمجھ ہے معصوم بڑی ہے
ابتک وہ غزل میر کے چکر میں پڑی ہے
کہنے لگی کہ مجھکو تو غالب سے پیار ہے
میں نے کہا کہ بچنا بڑا بادہ خوار ہے
کہنے لگی کہ داغ بہت شاندار ہے
میں نے کہا دامن بھی بہت داغدار ہے
کہنے لگی منیر کا کیا خوب ذوق ہے
میں نے کہا گلے میں غموں کا جو طوق ہے
کہنے لگی ندیم کی نظمیں کمال ہیں
میں نے کہا کہ توبہ ہے بالوں کی کھال ہیں
کہنے لگی پروین کی باتیں کھری گھری
میں نے کہا کہ ہاں مگر نسوانیت نری
کہنے لگی فراز تو لکھتے ہی خوب ہیں
میں نے کہا فلرٹی بھی اتنے ہی خوب ہیں
کہنے لگی کہ غزل تو محسن کا کام ہے
میں نے کہا اشاروں کا اک اژدھام ہے
کہنے لگی کہ نظم ہے راشد کی لاجواب
میں نے کہا کہ سمجھ سے بالا ہے وہ جناب
کہنے لگی حفیظ تو اردو کی جان ہے
میں نے کہا کہ بوڑھا ابھی تک جوان ہے
کہنے لگی کہ فیض سا شاعر بھی کوئی ہے
میں نے کہا کہ روس کے سالن میں ڈوئی ہے
کہنے لگی تو آتش و انیس کہاں ہیں
میں نے کہا کہ آئے جہاں سے تھے وہاں ہیں
کہنے لگی کہ حالی نے کمال کیا ہے
میں نے کہا کہ اردو کو بے حال کیا ہے
کہنے لگی کہ ہے کوئی اقبال سے بڑھ کر
میں نےکہا دیکھو کبھی مجھکو بھی پڑھ کر
کہنے لگی کہ جھوٹ نہ اتنا بڑھائیے
میں نے کہا تو کھسکیے اور بھاڑ میں جائیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دلاور فگار مرحوم کی مشہور نظم عظیم شاعر شے متاثر ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






