ہاتھوں کی لکیریں تو مٹانے سے رہے ہم

Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hill

سینے میں وہی آگ لگانے سے رہے ہم
مر مر کے تیرے ناز اٹھانے سے رہے ہم

پہلے ہی دے چکے ہو بہت نیک نامیاں
دامن پہ نئے داغ لگانے سے رہے ہم

عالم کا ایک حسن ہے یہ اختلاف بھی
ہر ایک کو تو اپنا بنانے سے رہے ہم

آتی ہیں ان میں اپکی کچھ بے وفائیاں
ہر راز تو دنیا کو بتانے سے رہے ہم

ہیں خوشبوئیں بکھیرنا الفاظ کا مقصد
بارود کا دھواں تو اڑانے سے رہے ہم

کل رات چکوروں نے کہا مد و جزر سے
مہتاب کو سینے سے لگانے سے رہے ہم

واجب ہے تیرا شوق مگر رشک بہاراں
ہاتھوں کی لکیریں تو مٹانے سے رہے ہم

دنیا میں کئی اور بھی غم ہیں میرے حضور
ہر شعر میں تو تم کو بسانے سے رہے ہم

Rate it:
Views: 697
20 Mar, 2013