ہاتھ اُٹھا کے سر جھکا کے تجھے مانگتا رہا
مَیں خدا سے گر گرا کے تجھے مانگتا رہا
کبھی نیازیں بانٹ کے ، کبھی رکھ کے روزے
طریقے سارے ہی اپنا کے تجھے مانگتا رہا
تعویز پہنے ترے لئے ، ترے لئے کئے سجدے
مزار و درباروں پہ جا کے تجھے مانگتا رہا
حالتِ مفلسی میں مانگی نہ راحت دل کی
مَیں درد و غم بھلا کے تجھے مانگتا رہا
مَنتیں مانگی ترے لئے چراغِ نم جلا کے
ننگھے پاؤں بھی جا جا کے تجھے مانگتا رہا
بدنامیوں کے تخت پہ بیٹھ کر ہائے جانِ جاں
تاج رسوائیوں کے سجا کے تجھے مانگتا رہا
نہالؔ خدا سے ملا مَیں بھی موسیٰ کے جیسے
کوئے طُور پہ بھی جا کے تجھے مانگتا رہا