سو بار ہے مانگا دشت تنہائی مے تجھے
اک بار تو تو بھی میرے حق مے دعا کر دے
مانا کہ تقاضہ آرزو مے ہے ناکام عشق مرا
مگر ہار تو وہ کہ جو جیت کو رسواہ کر دے
مہمان باد صبا نہی رکھتا جزا وار جو ہوں
بن جاؤں ہمراہ تیرا اتنا تو مجھ عاجز کو عطا کر دے
طلبگاری گوہر آدم سے نہ رکھ اے کوہ طور
یہ وہ انسان زمانہ ہے جو پتھر کو خدا کر دے
عالم کو ملے علم تو حاکم کو حکومت ہے رضا
یہ وہ مغرور تمنا ہے کہ جو زاہد کو فنا کر دے