ہاں تم سے محبت ہے ،اظہار سے کیا پردہ؟
الجھا ہوں جفاؤں میں، اقرار سے کیا پردہ
دیکھا جو حسن نازاں،سب راز ہوئے افشا
سینے میں لہو بولا۔۔ تلوار سے کیا پردہ؟
ہے پیش نظر جو بھی لمحوں کو عطا کر دو
اے شوق ! غم راہ دشوار سے کیا پردہ؟
منصور کی صورت ہے لفظوں سے وفا اپنی
تائید انا الحق ہوں ، اب دار سے کیا پردہ؟
جھکتی ہوئی جبیں کا پیغام خودی دیکھو
ہے جیت سبھی حاصل پھر ہار سے کیا پردہ؟
ہر ایک نبض پر ہے اک دسترس تمہاری
اے دست مسیحائی، بیمار سے کیا پردہ؟
برسے گی جب بھی بارش ہر ایک پہ برسے گی
بوندوں کی راوانی کو اغیار سے کیا پردہ؟
لہجے کی ہر تھکاوٹ،جزبوں کی ہر اٹھاوٹ
دیوار سے کہہ ڈالو۔۔ دیوار سے کیا پردہ؟
وہ ان کہی سی باتیں ،ٹھہری ہیں جو گماں میں
کہہ دو ناں چپکے چپکے ،اشعار سے کیا پردہ؟