ہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
Poet: اخلاق احمد خان By: Akhlaq Ahmed Khan, Karachiہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
ہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
یونہی بے سبب روٹھ جانا تیرا
غصّے میں گردن کو جھٹکانا تیرا
مجھے الجھنوں میں الجھانا تیرا
رازِ دل زباں پر نہ لانا تیرا
مزاج تھا ظالمانہ تیرا
مجھے کر گیا جو دیوانہ تیرا
بس تجھے دیکھا کرتا میں کھڑا کھڑا
ہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
یاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
وہ تیرانگاہوں میں سمیٹنا
بہانے بہانے سے دیکھنا
مجھے باتوں باتوں میں کریدنا
کسی چھوٹی بات کو لے بیٹھنا
تجھ کومنانے کو پھول بھیجنا
غضب ہوتا تیرا اسے پھینکنا
وہیں سوکھ جاتا وہ پڑا پڑا
ہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
ہاں مجھے یاد ہے وہ سب ذرا ذرا
پھر جانے کیا وقت کی تلوار کرگئی
میٹھی میٹھی چُبن سا وار کرگئی
رنگیں زندگی کو بہار کرگئی
محبت دِلوں میں بیدار کرگئی
دل کے ویرانوں کو گلزار کرگئی
گویا کہ ادا اپنا کردار کرگئی
وہ ہر لمحہ چاہت سے بھرا بھرا
ہاں مجھے یاد وہ سب ذراذرا
ہاں مجھے یاد ہے وہ دب ذرا ذرا
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






