ہاں پہلے غالبؔ تھی ، میرؔ ہو گئی ہوں میں
کتابِ عشق میں تحریر ہو گئی ہوں میں
اے میری ذات کا نقشہ اتارنے والے
تمہارے شہر کی تشہیر ہو گئی ہوں میں
تمہارے عشق کا اتنا تو رنگ ہے مجھ پر
تمہارے پیار میں پھر ہیر ہو گئی ہوں میں
بکھرتی سانس کا دیکھو کمال ہے کتنا
ترے خیال کی زنجیر ہو گئی ہوں میں
یہ سلسلہ کیا ہے سوچ آج تو وشمہ
کسی کی یاد میں دلگیر ہو گئی ہوں میں