ہجر کم بخت جو آیا ہے تو ٹل جائے گا
دل کو اک وہم کہ صدیوں میں یہ پل جائے گا
دل نے پھر سوچ لیا ہے کہ جُدا ہونا ہے
اشک پھر آنکھ سے نکلے گا مچل جائے گا
بچپنا آج بھی منقوش ہے دیواروں پر
دل کسی اور کھلونے سے بہل جائے گا
تُم سہولت ہی سے دینا شب ہجراں کی خبر
دل میں پارہ سا ہے، پہلو سے نکل جائے گا
اُس کی آنکھوں کے سحر سے ہو نکلنا اظہر
ہاں یہ ممکن ہے تو کیا دل سےبھی چھل جائے گا