ہر ایک درد محبت کے نام ہوتا ہے
یہی تماشا مگر صبح و شام ہوتا ہے
کہیں بھی ملتا نہیں ہے دیارِ خلوت میں
کہ جب بھی اس سے کوئی ہم کو کام ہوتا ہے
کوئی بھی بنتا نہیں دوست ہم غریبوں کا
ہماری سمت سے مثبت پیام ہوتا ہے
جناب شیخ رعونت میں مر نہ جائے کہیں
ہمارے ہاتھوں میں الفت کا جام ہوتا ہے
وہ قصرِ شاہی میں رہتا ہے اپنی راحت سے
غریب خانے میں اس کا قیام ہوتا ہے
خدا کا فضل ہے علم و کمال میں اب بھی
جہانِ عشق میں اعلی کلام ہوتا ہے
حصارِ نفرتِ دورِ جدید میں وشمہ
ہمارے پیار کا سب کو سلام ہوتا ہے