ہر ایک گلی، کوچے میں یہ اشتہار ہے
جیسے تمہارے عشق کا دستور ہم ہوئے
پنچھی تمہاری یاد کے یہ کیا رہا ہوئے
ہر وادیءِ امید سے ہی دور ہم ہوئے
جو غم سے ناشناس ہیں اُن سے گلہ نہیں
ہر غم زدہ کےساتھ سے مغرور ہم ہوئے
دنیا سے تیرے پیار کی لذّت کو چھین کر
اپنے ہی گھر میں آج سے محصور ہم ہوئے
ہم مرکزِ نگاہ تھے جس کے اسی کے غم
اتنے اٹھائے آج کہ مذکور ہم ہوئے
آنکھوں میں آندھیوں کا یہ وشمہ کمال ہے
بجھتے دیئے کی لو میں بھی مسرور ہم ہوئے