ہر شام روز دل کو بہلا لیتا ہوں
تنہائی میں خود کو ہی دوست بنا لیتا ہوں
یاد اُن کو کر کے مسکرا لیتا ہوں
گزرے لمحوں کو پھر قریب بلا لیتا ہوں
شام جب آتی ہے تو پوچھ جاتی ہے
کیا آج بھی آنسو بہاو گے میں ہنس دیتا ہوں
ہر شام روز دل کو بہلا لیتا ہوں
تنہائی میں خود کو ہی دوست بنا لیتا ہوں
زندگی کو جینے والا آج کیوں چُپ بیٹھا ہے
جب ماں یہ پوُچھتی ہے تو سر جُھکا لیتا ہوں
پُوچھے اگر کوئ کہ میری یہ حالت کا زمہ دار کون
تو آینے میں دیکھ خود پر اُنگلی اُٹھا لیتا ہوں
ہر شام روز دل کو بہلا لیتا ہوں
تنہائی میں خود کو ہی دوست بنا لیتا ہوں