ہر غم چھپا لیا ہے دل۔ بے قرار کا
پل بھی گزر سکا نہ تِرے انتظار کا
تم خوب جانتے ہو گزارے ہیں کیسے دن
کیوں حال پوچھتے ہو کسی سوگوار کا
گلشن سے آکے درد کے لپٹے ہوئے ہیں خار
کیسے تجھے سناؤں قصیدہ بہار کا
انسان کو سمجھ سکا انسان کب یہاں
دشمن بنا ہوا ہے یہاں یار یار کا
بیزار اِس قدر میں ہوا خود سے اے بلال
دامن کِیا ہے چاک غم۔ انتظار کا