ہواؤں سے پوچھتی ہوں میں احوال اسی کا
بے خیالی میں بھی رہتا ہے خیال اسی کا
شام و سحر ہو یا زندگی کا کوئی پہر
ہر لمحہ اسی کا ہے ہر سال اسی کا
چاند میں نظر آتا ہے ستارے میں بھی وہ
آنکھوں پہ چھایا رہتا ہے جمال اسی کا
زندگی میں خوشیوں کی برسات ہوئی ہے
مگر دل پہ چھایا رہتا ہے ملال اسی کا
کچھ سوچوں بھی تو سوچوں میں کیسے
سوچوں پہ پھیلا رہتا ہے جال اسی کا
دنیا کو پانے کی تمنا دل میں نہیں ہے
ہر سجدے میں آتا ہے سوال اسی کا